اہل بیت رسالت کربلا سے مدینہ کی طرف روانگی
جب تجھے روز اس صحرا میں گزار چکے کے تو اس وقت نعمان بن بشیر نے حضرت امام سید السجاد علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی یا ابن رسول اللہ یہ خوف کی جگہ ہے ہے اگر شاد فرمائیں تو یہاں سے کوچ کریں یہ سن کر پر حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سلام کوچ کرنے پر راضی ہوگئے پھر حضرت امام زین العابدین علیہ السلام میں سامان باندھنے کا حکم دیا یا پہ صاحب نے سامان سفر باندھ لیا یا پھر سکینہ نہ موت کے حکم کے ساتھ اپنے بابا کی قبر سے جدا ہونے پر پر زور سے روئی میں اور مزار کے گرد طواف کیا اور قبر شریف کو کو اپنی آغوش سے پکڑ کر ساخت گریہ کیا اس کے بعد کچھ اشعار پڑھے ے جن کا ترجمہ یہ ہے ہے اے زمین کربلا آگاہ ہو ہم تجھے ایک ایسا جسم امانت سوپ رہے ہیں جو بغیر غسل اور کفن کے مدفون ہے اے زمین کربلا ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم وصی اور جبریل علیہ السلام کی روح تجھے بطور امانت سپرد کر رہے ہیں اس وقت اس نتیجے نے اپنے آپ کو اپنے مظلوم بابا کی قبر انور پر گراں کر دیا دیا اور قبر سے لپٹ کر زور زور سے روتی تھی اور یہ بین تھیں اے بابا بابا کیا سبب ہے کہ آپ نے ہم سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے ہے اے بابا کیا سبب ہے کہ آپ کا دن آپ نے اہل بیت کی صحبت سے سیر ہو گیا ہے عیب مظلوم بابا تو آپ کو ایک دم قرار نہیں تھا میرے سوا اب کیا وجہ ہے ہے آپ نے تنہائی اختیار کرلی ہے ہے اے بابا کیا آپ کو خبر نہیں ہے ہے آپ کی شہادت کے بعد بعد ہم پر کیا کیا ظلم و ستم ہوئے ہوئے جب آپ شہید ہوئے تو آپ کے ہم سب اہل بیت السلام اسیر ہوئے سوار کر کے ہر شہر و دربار میں پھراتے رہے ہے ہے بابا اب ہم مدینے جاتے ہیں ہیں افسوس آپ اس صحرا میں آرام کر رہے ہیں ہیں یہ فقرہ سن کر کر رو نے کی آواز بلند ہوئی اہل خانہ نے اسے تسلی دی ہندی اور اپنے ساتھ مدینہ لے گئے حضرت فاطمہ بنت حسین علیہ السلام اپنے والد بزرگوار ان کی قبر پر گر پڑی پھر اس طرح گریہ کیا۔ پھر آپ پر پر غش طاری ہو گئی امام حسین علیہ السلام کی زوجہ سال سال تک ک امام حسین علیہ السلام کے مزار پر رہیں پھر مدینے واپسی کی اسی طرح سب اہل بیت نے شہید کربلا کے قبروں پر روتی تھی اور اہل بیت روانگی کرتے اس کے بعد یہ کہتی تھی تھی ہی مرنے والوں اب ہمیں جینے میں کوئی دلچسپی نہیں نہیں اب ہمیں جینے کی کوئی خواہش نہیں ہیں امام حسین علیہ السلام کے گھر نےنے کہا ہے ہے ہی سننے والوں لو ہم پر گر یہ کیا کرو مدینہ پاک میں میں اہل بیت کا داخلہ جمعہ کے دن لیکن اس وقت ہوا ہوا جس وقت خطیب نماز جمعہ کا خطبہ پڑھا تھا اوس نے خطبے میں میں حضرت امام حسین علیہ السلام نام اور ان کے حالات و واقعات کا ذکر شروع کر دیا یا جس کی وجہ سے پھر ان کا غم تازہ ہوگیا پھر اگلے دن لیکن اہل بیت نے نے روزہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ ہوئے وہ دن دن بھی بھی اہل بیت کے لیے رونے والا دن تھا اہل بیت بیت نبوت کی کی روزہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آمد علامہ باقر مجلسی سے سے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ہیں حضرت زینب علیہ السلام امام مسجد رسول کی چوکٹ کٹ کے دونوں بازو پکڑ کر پکارتی تھی اے نانا پاک میں تمہیں اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر سنانے آئی ہو اور آواز بلند ہوئی کوئی اور سب اہل بیت رونے لگے جب علی ابن حسین علیہ السلام کو دیکھتی تو ان کا غم دوگنا ہو جاتا تھا اور ان کو کسی طرح تسکین نہیں ہوتی تھیں ان کے بعد حضرت ام کلثوم علیہ السلام نے مسجد رسول خدا میں تشریف لائیں سلام کیا اے نانا میرا سلام ہو آپ پر آپ کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر لے کر آئی ہو وہ روایت کرتے ہیں کہ اس فریاد کے ساتھ ہاتھ مزار رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دردناک آواز پیدا ہوئی ہوئی جس کو سن کر سب لوگ رونے لگے گے آگے آگے اس کے بعد علی ابن حسین علیہ السلام اپنے نانا پاک کی قبر پر تشریف لائے آئے اور اپنے چہرے مبارک کو مزار پر رکھ کر اور یہ اشعار پڑھے جن کا اردو میں ترجمہ یہ ہے اے نانا نا میں آپ سے فریاد کرتا ہوں کہ کہ آپ کا محبوب تو قتل ہو گیا ہے ہے اور آپ کی نسل برباد ہو گئی ہے ہے میں ایک غمگین بیمار اور قیدی کی حیثیت سے ان کا کوئی مددگار اور حامی نہیں تھا جیسے لونڈیا کی قید کی جاتی ہیں ہیں ایسے ہی ہم قیدی بنائے گئے گئے اور ہم پر مصیبتیں دے کی اور وہ مصیبتیں جن کو کوئی دل برداشت نہیں کر سکتا تھا اینا نا آپ کے بعد بنی امیہ نے ہم پر بہت سارے ظلم و ستم کئے یے اور ہمارے حق میں آپ کا کچھ لحاظ نہیں کیا حضرت زین العابدین کی محمد بن حنفیہ سے ملاقات اس کے بعد بعد حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اپنے نانا پاک کی قبر مبارک سے باہر آئے اور اپنے چاچا جا حضرت حنفیہ کے پاس پاس تشریف لائے آئے اور ان کو اپنے بابا حضرت امام حسین علیہ السلام کیززززشہادت کی خبر دے دی اس وقت محمد حنفیہ اس قدر روئے ے روتے روتے مجھے غش طاری ہو گئی ہائے افسوس اے مام حسین السلام سلام کلام خدا کی قسم آپ کی مصیبت مجھ پر بہت دشوار ہے کس طرح آپ امت امت کو خفا کار سے سے طلب نصرت ومدد ہوئے اور کسی نے آپ کی فریاد رسی نہیں کی اب اب جب تک میں زندہ رہوں گا آپ کی مصیبت پر نوحہ کرتا رہوں گا ہیرا پھر محمد ابن حنفیہ اٹھے اور اپنے گھر میں چلے گئے تین دنوں تک آپ اپنے گھر میں رہے ہے چوتھا دن ہوا تو تو آپ کھڑے ہوئے تلوار اپنے بدن پر پر سجا کر کر اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور ایک پہاڑ کے سامنے چلے گئے جب مختار نے مظلوم میں کربلا کی شہادت کے کے پانچ یا چھ سال کے بعد خروج کیا تو تو محمد حنفیہ پہاڑ سے برآمد ہوئے حضرت ام سلمی سے ملاقات حضرت ام سلمہ حجرے سے باہر آئیں ان کے ہاتھ میں ایک شیشی تھی تھی جس میں جو خاک تھی تھی وہ خون ہو چکی تھی تھی اور دوسرے ہاتھ میں حضرت امام حسین علیہ السلام سلام کی دختر گھر حضرت فاطمہ علیہ السلام سلام مر یضہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے جب جب اہل بیت نے نے حضرت سلمہ کے ہاتھوں سے سے خون آلودہ خدا خاک پاک کو دیکھا دیکھا تو رونے لگے گے گے آگے پاس وہ مسلمہ کے ہم آغوش ہوئے آئے پھر انہوں نے حضرت فاطمہ نہ کے حال احوال پوچھے مجھے انہیں سلمہ نے اہل بیت السلام شام کو کہا صبر کرو ۔